مرسی کی مٹھی میں مصر،مقید یا محفوظ؟ سید منصور آغا
مصر سے ایک مرتبہ پھرشورو شر
اور مظاہروں کی خبریں آرہی ہیں۔اس کا سرا ایک بیرونی سازش سے جڑا نظرآتا
ہے۔ 26؍ نومبر کی ایک رپورٹ کے مطابق، جس کی ابھی تک تردید نہیں ہوئی ہے،
4؍نومبر کو رام ا
للہ میں مصر کے سابق
سفارتکار، وزیر خارجہ اور عرب لیگ کے سابق جنرل سیکریٹری عمروموسیٰ اور
اسرائیل کی سابق وزیر خارجہ تسپی لیفنی(Tzipi Livni) کے درمیان ایک خفیہ
ملاقات ہوئی تھی جس کی تفصیل روزنامہ’’القدس العربی‘‘ کے مدیرعبدالباری
العطوان نے ایک برطانوی سیٹلائٹ ٹی وی چینل کو ایک انٹرویو میں بتائی ہے۔
محترمہ لیفنی ان دنوں سیاسی خلا میں بھٹک رہی تھیں اور 3؍ دسمبر کو ہی
سیاست میں واپس آنے اور آئندہ چنائو لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح جناب
مرسی بھی مصر میں اپنی سیاسی جڑ مضبوط کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں۔ مسٹر
عطوان کے مطابق لیفنی نے مسٹر موسیٰ سے سیدھے سیدھے کہا کہ غزہ پر اسرائیلی
حملے کی کامیابی کے لیے وہ صدر محمد مرسی کو داخلی معاملات میں اس قدر
مصروف کردیں کہ وہ اسرائیلی کاروائی میں مداخلت نہ کرسکیں۔ چنانچہ واپس
آتے ہی عمروموسیٰ نے صدرمرسی اور ان کی پارٹی کے خلاف عوامی حملے تیز
کردیے۔ دوسرامورچہ آئین ساز اسمبلی میں کھولاگیا، جس کے وہ ایک رکن تھے۔
انہوں نے ایک ایسی شق پر بحث کی راہ مسددود کردی جو خود ان کی پیش کی ہوئی
تھی۔ ساتھ ہی حزب اختلاف کے گروپوں کو اسمبلی کے بائیکاٹ پر اکسایا تاکہ
آئین سازی کا عمل بحران کا شکار ہوجائے اور اسمبلی اپنی مقررہ مدت
(30نومبر )تک اس کو منظور نہ کرسکے۔ چنانچہ یکے بعد دیگرے متعدد چھوٹے
گروپوں نے عمروموسیٰ کے اکسانے پر کونسل کی رکنیت سے خود کوہٹالینے کا
اعلان کردیا۔مسڑموسیٰ صدارتی الیکشن میں محمد مرسی کے قریب ترین حریف تھے
اور اس تگ و دو میں ہیں کہ کسی طرح اقتدار ان کے زیر اثرآجائے۔
ان کا یہ سیاسی اقدام اس اعتبار سے بڑا سنگین تھا کہ کونسل کی مدت ختم ہونے والی تھی اور آئین سازی کا کام تقریباً سات آٹھ فیصد باقی تھا۔ اگرچہ صدر مرسی نے ایک صدارتی حکم جاری کرکے کونسل کی مدت میںدوماہ کی توسیع کردی، لیکن یہ اشارے مل رہے تھے کہ جس طرح ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ’سپریم آئینی بنچ‘ نے، مصر کی پہلی منتخب پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کے انتخاب کوصدر مرسی کی حلف برداری سے عین قبل محض تکنیکی بنیاد پرغیر قانونی قرار دے دیا تھا، جس کے بعد فوجی کمان کونسل نے آناً فاناً اس کو تحلیل کرنے کا فرمان جاری کردیا تھا،اسی طرح آئین ساز کونسل اورایوان بالا کو بھی کالعدم کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے اس مقصد کی کئی عرضیاں مذکورہ بنچ میں زیر سماعت ہیں جس کے اکثر جج صاحبان کی تقرری معزول ڈکٹیٹر صدر حسنی مبارک کے دور میں ہوئی تھی۔ ظاہر ہے انہوں نے ایسے ہی افراد کا تقرر کیا ہوگا جن کا رجحان مذہب سے دوری کا ہو۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ صدر مرسی کو اقتدار منتقل کرنے سے پہلے سپریم فوجی کمان کونسل نے، جس کو حسنی مبارک سے اقتدار منتقل ہوا تھا، ایک فرمان جاری کرکے آئین کی توثیق کا اختیارخود اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔یہ سب تدبیریں اس لیے تھیں کہ اگرچہ لامذہب گروپ اقلیت میں ہے مگر آئین ان کی پسند کا ہی ہو۔ صدر مرسی نے زہرکے یہ دونوں گھونٹ اس وقت تو خاموشی سے پی لیے، مگر12اگست 2012ء کو 77 سالہ وزیر دفاع اور سپریم فوجی کمان کونسل کے چیئرمین فیلڈ مارشل احمد سمیع طنطاوی اور ان کے معتمد خاص چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سمیع عنان کو ریٹائر کرکے فوج پر اپنی گرفت مضبوط کرلی۔11فروری 2011ء کو صدر حسنی مبارک کے زوال کے بعد سے طنطاوی ہی فوجی کمان کونسل کے ذریعہ ملک پر حکومت کررہے تھے۔ مگر عدلیہ میں ابھی ان جج صاحبان کا دبدبہ ہے جوسابق نظام کے پسندیدہ تھے۔ سمجھا جاتا ہے ان کی ہمدردیاں مصر کے نئے رجحان اور نومنتخب صدر سے زیادہ مخالف نظریے سے وابستہ ہیں۔
مسٹر موسیٰ کی مہم کے زیراثر چند ارکان کی علیحدگی کے باوجود ایک سو رکنی آئین ساز کونسل کے ممبران کی تعداد ازروئے قانون آئین کی منظوری کے لیے مطلوب دوتہائی یعنی67 سے کم نہیں ہوئی۔ چنانچہ حتمی رائے شماری کے موقع پر 85ارکان موجود تھے، حالانکہ خبریں یہ تھیں کہ تقریباً 30 ممبران خود کو الگ کرچکے ہیں۔ اسرائیل اور عمرو موسٰی کے درمیان اس سازبار کی تصدیق مشرق وسطٰی کے معاملات کے ایک اسرائیلی ماہر بنہار عنبری نے بھی کی ہے۔ انہوں نے روسی ٹی وی چینل ’’رشیا ٹودے‘‘ کو ایک ملاقات کے دوران بتایا کہ مصری صدر مرسی نے اسرائیلی حملے کو شروع ہونے سے پہلے ہی نامراد کردیا۔ انہوںنے اہم بات یہ کہی کہ ’’اسرائیل نے کچھ داخلی طاقتوں پر انحصار کیا تھا کہ وہ مسڑی مرسی کو اندرون ملک سیاسی و اقتصادی معاملات میں الجھائے رکھیں گے‘‘۔ مگر ایسا نہیں ہوسکا اور صدر مرسی کے دبائو میں اسرائیل کو19نومبر کو اپنے حملے روک دینے پر آمادہ ہونا پڑا جس پر امریکا سمیت کئی ممالک نے صدر مرسی کو داد و تحسین سے نوازا۔ مشرق وسطیٰ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب اسرائیل کو ایسی پسپائی اختیارکرنی پڑی۔ اس سے ضمناً ایک نکتہ یہ صاف ہوتا ہے کہ اہل فلسطین پر اسرائیل ماضی میں مظالم اس لیے جاری رکھ سکا کہ مصر کے سابق حکمرانوں کی اس کو تائید حاصل تھی، ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ صدر مرسی اسرائیل کے حملے رکوا سکتے ہیں مگر انور سادات اور حسنی مبارک نہیں رکوا سکے۔اسرائیل اگرچہ حالیہ امریکی صدارتی الیکشن میں صدر اوباما کو وہائٹ ہائوس سے باہر کا راستہ دکھانے میںکامیاب نہیں ہوسکا مگر اس کو یہ امید ضرور ہے وہ صدرمرسی کو منصب چھوڑنے پر مجبور کاسکے گا تاکہ مصر میں کوئی ایسا شخص پھر برسر اقتدار آجائے جو فلسطینیوں اور عربوں کے مفادات کے بجائے اسرائیلی مفادات کا نگراں ہو۔
اس جنگ بندی کے اگلے ہی دن،20نومبر کو صدر مرسی نے ایک غیر معمولی فرمان جاری کرکے (عارضی طور) پر عدلیہ پر یہ پابندی لگادی کہ نہ تو کسی صدارتی فرمان کو کالعدم کیا جائے گا نہ آئین ساز کونسل کو چھیڑا جائے گا۔ جس پر یہ اندیشہ ظاہر کیا گیا وہ بھی سابق صدور کی طرح ملک کے آمر بن جانا چاہتے ہیں۔ چنانچہ احتجاجوں کا سلسلہ شروع ہوگیا، جو ہنوز جاری ہے۔لیکن مرسی نے عدالت عالیہ کے ججوں سے ملاقات کے دوران اور قوم سے ٹی وی پر خطاب میں یہ اطمینان دلایا ہے کہ یہ اقدام عارضی ہے اور اس کامقصد صرف اتنا ہے کہ آئین سازی اورعوام کے منتخب نمائندوں کو اقتدار کی مکمل منتقلی میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔
ایک اندیشہ یہ بھی تھا کہ اگر اس صدارتی حکم کے باوجود عدالت عالیہ نے آئین ساز کونسل کو کالعدم کردیا یا اس کی مدت میں صدارتی حکم سے کی گئی توسیع کو مسترد کردیا تو ایک نیا بحران کھڑا ہوجائے گا۔ چنانچہ آئین ساز کونسل نے ایک طویل اجلاس کیا جو جمعرات (29نومبر ) کو رات بھر چلتا رہا اور جمعہ 30؍نومبر کو اپنی مدت ختم ہونے سے پہلے آئین کی تمام 234دفعات کو فائنل منظوری دے دی۔ اس پر اپوزیشن کا اعتراض یہ ہے کہ آئین میں ملک کی مشترکہ سوچ کے بجائے صرف ایک ہی غالب رجحان کا عکس ملتا ہے اور کیونکہ اس پر ووٹنگ میں عیسائی اوراجتماعی امور میں مذہب کے عمل دخل کے مخالف ممبران نے حصہ نہیں لیا،اس لیے اس منظوری کا اعتبار ختم ہوگیا۔ انہوں نے یہ دلیل غالباً ہندستان کی بڑی اپوزیشن پارٹی بھاجپا سے لی ہے جو یہ اصرار کرتی ہے کہ ہرسرکاری فیصلہ اس کی رائے اور ترجیح کے مطابق لیا جائے،ورنہ وہ پارلیمنٹ نہیں چلنے دے گی۔
آئین ساز کونسل کی اس مستعدی پر اگرچہ مخالف سیاستداںاورچند صحافی جلد بازی کا الزام عاید کررہے ہیں مگر اس پر قانونی سوال نہیں اٹھایا جاسکتا۔یہ جمہوریت کی جڑیں جمانے کا ایک قدم ہے۔ اس منظوری سے سپریم آئینی عدالت کے محترم جج صاحبان بھی ششدر رہ گئے، جو ہفتہ کے دن آئین ساز کونسل کے قانونی جواز پر زیر غور عذرداریوں پر اپنا فیصلہ صادر کرنے والے تھے۔ اسی دوران صدر مرسی نے سابق دور سے چلے آرہے اٹارنی جنرل عبدالمجید محمود کو ان کے منصب سے ہٹا دیا اور ان کی جگہ طلعت عبداللہ کو حلف دلادیا۔ اگرچہ مسٹر محمود کو وٹیکن میںملک کا سفیر مقرر کیا گیا ہے مگر انہوں نے اپنے ہٹائے جانے پر احتجاج کیا اور نئی ذمہ داری نہیںسنبھالی ہے۔
ہفتہ یکم دسمبر کو سپریم آئینی عدالت کے باہر صدر مرسی کے حامیوں نے مظاہرہ کیا۔ اگرچہ وزارت داخلہ کی طرف سے ججوںکو تحفظ فراہم کرنے کا یقین دلایا گیا تھا مگر انہوں نے ’’ ذہنی اور جسمانی دبائو ‘‘ پر احتجاج کرتے ہوئے عدالت کا بائکاٹ شروع کردیا۔ اس روز( ہفتہ کو) ہی صدر مرسی نے ایک فرمان جاری کرکے آئین پر ریفرنڈم کے لیے 15؍دسمبر کی تاریخ مقرر کردی ہے۔ ریفرنڈم کے لیے ضابطہ کے مطابق عدلیہ کی نگرانی مطلوب ہے، مگر اندیشہ یہ تھا موجودہ حالات میں ججوں نے اس سے انکارکیا تو ایک نیا مسئلہ کھڑا ہوگا۔ مگر پیر3؍دسمبر کی شام ہوتے ہوتے ’’سپریم جوڈیشیل کونسل‘‘ نے ججوں کے ہڑتال پر رہنے کے عزم کے باوجود ریفرنڈم کی نگرانی سے اتفاق کرلیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صدارتی فرمان کے مطابق آئین پر 15؍دسمبر کو ریفرنڈم ہوگا۔ ملک میں موجودہ سیاسی رجحان سے اندازہ یہ ہے کہ اگر عالم مایوسی میں اپوزیشن گروپ ریفرنڈم کو ناکام کرنے کے لیے لاقانونیت پر نہیں اترآئے تو آئین کو بھاری اکثریت سے مطلوبہ عوامی منظوری مل جائے گی، جس کے نوے دن کے اندر تحلیل شدہ ایوان کا انتخاب عمل میں آئے گا اور ملک کا انتظامیہ پوری طرح سول کنٹرول میں آجائے گا۔ لیکن یہ سب اسی صورت میںممکن ہوگا جب ہنگاموں کا دور رک جائے۔ درایں اثنا مرسی حامیوں نے بجز ایک دو مظاہروں کے سڑکوں پر اترنے سے گریز کیا ہے تاکہ ٹکرائو کی صورت پیدا نہ ہو اور ملک میںخون خرابہ کا نیا دور شروع نہ ہوجائے۔ اس لیے اس وقت صرف وہی مظاہرے نظر آرہے ہیں جو اپوزیشن کی طرف سے ہورہے ہیں، مگر اس کا مطلب یہ نہیں مرسی کے موقف کی عوامی حمایت مفقود ہوگئی ہے۔
آئین کے مسودے میں اقلیتوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ سابق آئین میں مصر کو عرب دنیا کا ایک حصہ کہا گیا تھا، موجودہ میں عرب اور مسلم دینا کا حصہ کہا گیا ہے۔ سابق کی دفعہ 2کے مطابق’’ریاست کا مذہب اسلام اور زبان عربی ہے۔ شریعت کے اصول قانون سازی کی اصل ماخذ ہیں۔ ‘‘ نئے آئین میں اس دفعہ کو جوں کا توںرکھا گیا ہے۔البتہ دفعہ 219میں وضاحت کی گئی ہے کہ شریعت کے اصولوں سے مرادکیا ہے؟ ساتھ ہی کہا گیا ہے کہ سنی اسلام کے چاروں مذاہب سے رہنمائی حاصل کی جائے گی۔ سابق آئین میں مذہبی اقلیتوںکا کوئی ذکر نہیں، جبکہ نئے مسودے میں کہا گیا ہے عیسائی اور یہودی فرقوں کے لیے قانون سازی کا اصول ملک میں ان کی حیثیت اور مذہب کے مطابق ہوگا۔موحد اقلیت کو اپنی عبادت گاہیں بنانے چلانے کا حق اور اپنے مذہبی امورمیں آزادی ہوگی۔ تمام مذاہب کے انبیا اور رسل نیز اہم شخصیات کی توہین کو جرم قرار دیا گیا ہے۔ہر شخص کومذہبی آزادی اور اظہار خیال کی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔بیوہ اور مطلقہ خواتین کو گزارے کی گارنٹی دی گئی ہے اور عورتوں بچوں کے حقوق کے تحفظ کی بات کہی گئی ہے۔ قانون کے سامنے سب کو یکساں شہری قراردیا گیا ہے اور خاص بات یہ کہ صدر کی مدت چار سال مقرر کرتے ہوئے طے کردیا گیا ہے کہ کوئی فرد دو مدّت سے زیادہ اس منصب پر نہیں رہ سکتا۔
صدر مرسی نے پیر، 3؍دسمبر کو ایک انٹرویو میں اصرار کے ساتھ کہا ہے کہ انہوں نے عدلیہ پر پابندیاں عارضی ہیں۔ عدالتیں صرف اقتدار سے متعلق معاملات میں مداخلت کی مجاز نہیں ہوں گی، باقی ان کے دائرہ کار میں کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی۔ انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ خفیہ ذرایع سے ایک ایسی سازش کا پتا چلا تھا جس کے تار غیر ملک سے جڑے تھے اور اس سازش کے تحت عدلیہ کو استعمال کرکے جمہوری پیش قدمی کو روکنا مقصود تھا۔ جس وقت انہوںنے قومی محکمہ خفیہ کے چیف مراد موافی کو ہٹایا تھا اس وقت بھی ایک ایسی ہی سازش کی خبر آئی تھی، اگر اس کی تصدیق نہیں ہوسکی۔ وہ یہ تھی کہ روزہ افطار کے وقت غزہ میں فوجیوں پر دہشت گردانہ حملے کے بعد جب صدر مرسی وہاں جائیں تو ان کو قتل کردیا جائے۔ اس دہشت گرد حملے کے بعد حملہ آور وں نے ویڈیو گرافی کی تھی جس میں کئی فوجی مارے گئے تھے۔ اورپھراسرائیل کی سرحد میں داخل ہوکر اپنی گاڑیوں کو جلا دیا تھا اور خود لاپتا ہوگئے تھے۔ گمان ہے کہ یہ ساری سازشیں اسرائیل کی طرف سے ہورہی ہیں۔ ابھی مصرمیں جمہوریت کی ابتدا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا صدر مرسی اور ان کی پارٹی مخالفوں کی سازشوں کے باوجود مصر کو صحیح معنوں ایک تعمیری اسلامی جمہوریہ بنانے میں کامیاب ہوں گے یا نہیں جس میں ہر کمزورفرد، چاہے اس کا تعلق اکثریت سے ہو یا اقلیت سے ہو خود کو پوری طرح محفوظ سمجھے۔
Post a Comment