کالاباغ ڈیم Kalabagh Dam

کالاباغ ڈیم

کالاباغ  ڈیم  کانا م توکالا تھا لیکن اگر یہ  ڈیم بن جاتا تو پورے پاکستان کو سر سبز و شاداب بنایا جا سکتا تھا کسی نے اس پر سیاسی دکانداری چمکا یی تو کیی لوگوں  نے  اس ڈیم کو منفی پروپیگنڈہ کے طور پر استعمال کرکے پاکستان کو  اتنانقصان پہنچایا کہ شاید کبھی پورا   نہ ھو سکے آج جب ہم سب لوڈ شیڈنگ اور پانی کی کمی اور مس منیجمنٹ کا شکار ہیں اس کی وجہ کالاباغ ڈیم جیسے منصوبے کا طویل التوا ہے   حالانکہ عالمی مالیاتی اداروں نے اس کے لیے فنڈز دینے  کے لیے کئی مرتبہ یقین دہانی کرائی۔پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت نے اس منصوبے کو مکمل طور پر ختم کرنے کا یک طرفہ اعلان کردیا ہے  یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ   نواب آف کالاباغ خاندان سے تعلق رکھنے والے    کالاباغ  ہی کے رہائشی نواب ملک عماد کا تعلق بھی  اب پیپلز پارٹی سے ہے


کالا باغ ڈیم کی فزیبلٹی پر انیس سو تراسی میں کام شروع ہوا اور اس دن سے یہ ڈیم متنازعہ بنا ہوا ہے۔ جب میاں نواز شریف وزیراعظم بنے اور انیس سو اکانوے میں یعنی پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہوا تو ان دنوں آئینی ادارے قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس ہوا۔

اجلاس میں شریک اس وقت کے صوبہ سندھ کے ایڈیشنل چیف سیکریٹری کے مطابق وزیر اعظم کے زیر صدارت اس اجلاس میں پنجاب کے وزیراعلی مرحوم غلام حیدر وائیں نے کہا تھا کہ اگر کالا باغ ڈیم کے نام پر اعتراض ہے تو اس کا نام جام ڈیم رکھ لیتے ہیں جس پر سندھ کے وزیراعلیٰ نے کہا تھا کہ وائیں کے بنا جام بیکار ہے اور اس کا نام جام وائیں ہونا چاہیے۔

اس مذاق میں کہی گئی بات کی بنا پر اجلاس کے بعد جب بجٹ میں کالا باغ ڈیم کے لیے رقم مختص کی گئی تو جام صادق علی نے وزیراعظم نواز شریف کو اس پر احتجاجی خط لکھا تھا کہ ایسا نہ کریں۔

دوسری بار جب نواز شریف وزیراعظم بنے تو انہوں نے انیس سو چورانوے میں ایٹمی دھماکے کے ساتھ ساتھ کالا باغ ڈیم بنانے کا بھی اعلان کیا جس پر سخت احتجاج کے بعد انہیں وہ اعلان واپس لینا پڑا۔

کالا باغ ڈیم کے متعلق ایک بار سندھ کے ایک سیاستدان رسول بخش پلیجو نے کہا تھا کہ اگر کالا باغ ڈیم کا نام مدینہ ڈیم بھی رکھیں تو انہیں قبول نہیں ہوگا۔

کالاباغ کی سائیٹ یا کھنڈرات کروڑں روپے کی مشینری ضائع ہو گئی

پاکستان کے انتہائی متنازعہ کالا باغ ڈیم بنانے کے لیے سائیٹ پر لاکھوں روپے مالیت کی مشینری زنگ آلود حالت میں اب بھی موجود ہے اور بنائے گئے مکانات اور دفاتر کھنڈرات کا منظر پیش کر رہے ہیں۔

کالاباغ ڈیم سائٹ اور تباہ حال مشینری
گزشتہ بائیس برسوں سے کام بند ہے اور واپڈا کے بارہ ملازمین جن میں ایک سٹور کیپر، آٹھ چوکیدار، ایک ڈرائیور، ایک الیکٹریشن اور ایک وائرلیس آپریٹر شامل ہیں، اب بھی یہاں تعینات ہیں۔ زیادہ تر ملازمین اکثر چھٹیوں پر ہوتے ہیں لیکن انہیں تنخواہیں واپڈا سے باضابطہ طور پر ملتی ہیں۔

کالا باغ دریائے سندھ کے دائیں کنارے پر واقع ہے اور اس علاقے میں زیادہ تر زمینیں نواب آف کالا باغ کی ہیں جو ملک بھی کہلاتے ہیں۔ صوبہ پنجاب کے ضلع میانوالی کے صدر دفتر سے ستر کلومیٹر کے فاصلے پر جبکہ کالا باغ شہر سے تقریبا پینتالیس کلومیٹر کے فاصلے پر اس متنازعہ ڈیم کی سائیٹ واقع ہے۔

کالا باغ ڈیم کی سائیٹ پیر پہائی نامی گاؤں کے پاس ہے لیکن نام نوابوں کے شہر کالا باغ سے منسلک ہے۔ ڈیم کی سائیٹ سے جیسے ہی دریا موڑ لیتا ہے وہاں جھیل نما دریا کا پیٹ بن جاتا ہے اور یہی جھیل ڈیم بنانے کے لیے موزوں سمجھی جاتی ہے۔

اس مقام پر اگر دریا کے بہنے کی سمت یعنی مغرب کی طرف چہرہ کرکے اگر کھڑے ہوں تو دائیں جانب صوبہ سرحد کے کوہاٹ ضلع کی حدود ہیں جبکہ دائیں کنارے پر صوبہ پنجاب کے ضلع میانوالی اور پیچھے کی جانب ضلع اٹک کی حدود ہیں۔

دریا کے دائیں کنارے زیادہ تر لوگ پشتو بولتے ہیں جبکہ بائیں کنارے بنی افغان نامی ایک بڑا گاؤں اور کئی چھوٹے قصبے اور دیہات بھی پشتو بولنے والوں کے ہیں جن میں زیادہ تر افغان پناہ گزیں بتائے جاتے ہیں۔ لیکن پیر پہائی گاؤں میں پنجابی اور سرائکی/ ہندکو زبانیں بولنے والے اکثریت میں ہیں۔

کچے اور ریتلے پہاڑوں میں پیر پہائی گاؤں کے قریب جہاں دریائے سندھ موڑ کاٹتا ہے وہاں راولپنڈی سے آنے والے گندے پانی کا نالا بھی گرتا ہے اور وہ میلا پانی خاصی دور تک دریائے سندھ کے بائیں کنارے ساتھ ساتھ چلتا صاف دکھائی دیتا ہے۔

کوہ ہمالیہ سے نکلنے والے دریائے سندھ کا شمار دنیا کے طویل ترین دریاؤں میں ہوتا ہے۔ اس دریا کو کوئی عباسین تو کوئی انڈس کچھ دریائے سندھ تو بعض لوگ سندھو دریا کہتے ہیں۔ اس دریا میں سینکڑوں چشمے، برساتی نالے اور چھوٹے دریاؤں کے علاوہ گندے پانی کے نالے بھی گرتے ہیں۔

کالا باغ ڈیم کی سائیٹ پر انیس سو چوراسی کے قریب کچھ کام شروع ہوا اور انجنیئرز نے دریا کے اوپر ایک کیبل وے نصب کی جو اب بھی موجود ہے۔ اس جگہ دو کمرے بنے ہیں جو انتہائی خستہ حالت میں ہیں۔ ایک کمرے میں بڑا ٹیبل بھی ٹوٹی پھوٹی حالت میں پڑا ہے۔

اس کیبل وے میں بیٹھ کر انجنیئرز نے اس وقت دریا کے اندر ڈرِلنگ کا کچھ کام شروع کیا تھا لیکن شدید سیاسی مخالفت کی وجہ سے سن انیس سو چھیاسی میں کام روک دیا گیا اور آج تک دوبارہ شروع نہیں ہوسکا۔

ڈیم کی سائیٹ کے آس پاس آبادی دور دور تک پھیلی ہوئی ہے اور ایک سنگل ٹریک خستہ حال سڑک بنی ہوئی ہے۔ ڈیم سے تھوڑے فاصلے پر سیمنٹ کے چار پانچ بڑے کارخانے بھی لگے ہیں۔

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے ضلع میانوالی میں واقع کالا باغ کے مقام پر دریائے سندھ کے اوپر بننے والے اس متنازعہ ڈیم کا نام بھی علاقے سے منسوب کیا گیا ہے۔

اس ڈیم کے بارے میں پاکستان کے چار میں سے تین صوبے مخالفت کر تےرہے ہیں اور صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلیوں سے متفقہ طور پر کم از کم دو دو بار مختلف اوقات میں قراردادیں منظور کی جا چکی ہیں۔

ایسی صورتحال کے باوجود جب کوئی بھی کالا باغ ڈیم بنانے کے لیے اتفاق رائے قائم کرنے کی بات کرتا ہے تو ان تینوں صوبوں کی بیشتر سیاسی جماعتیں یہ کہتی ہیں اس ڈیم کے بارے میں پہلے سے تین صوبوں میں اتفاق رائے ہے کہ یہ ڈیم ان کے مفادات کے منافی ہے اس لیے اب کس بات کی اتفاق رائے؟

اس ڈیم کے مخالفین کہتے ہیں کہ یہ ڈیم فالٹ لائن اور سالٹ رینج،میں واقع ہے۔ جبکہ ڈیم کے حامیوں کا موقف اس کے برعکس ہے۔

کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرنے والے صوبہ سرحد کے سیاسی رہنما کہتے ہیں کہ ان کے صوبے کا بڑا شہر نوشہرہ ڈوبے گا اور مردان ویلی سیم اور تھور کا شکار ہوجائے گی۔ لیکن کچھ ماہرین اس تاثر کو رد کرتے ہیں۔

صوبہ سندھ اور بلوچستان والے چونکہ دریائے سندھ کے آخری چھیڑے پر واقع ہیں اور انہیں خدشہ ہے کہ جس طرح ماضی میں کیے گئے معاہدوں اور کرائی گئی یقین دہانیوں کے باوجود پانی کے بعض ایسے منصوبے بنائے گئے ہیں جس سے انہیں نقصان اور صوبہ پنجاب کو فائدہ پہنچا ہے۔ لہذا اس طرح کالا باغ ڈیم کا منصوبہ بھی ان کے مفادات کے منافی ہے اور انہیں بہ وقت ضرورت پانی نہیں مل پائےگا۔

سابق صدرجنرل پرویز مشرف اکثر کہتےتھے  کہ وہ آئینی گارنٹی دینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے وزیراعلیٰٰ نے کہا تھا کہ کس آئین کی گارنٹی جس کو بارہا تبدیل کیا جاتا رہا ہے۔

البتہ وزیراعلیٰ نے تیسرے فریق کی گارنٹی قبول کرنے کی بات بھی کی تھی اور انہوں نے کہا تھا کہ عالمی بینک یا کوئی بڑا ملک اس بات کی گارنٹی دے کہ کالا باغ ڈیم سے سندھ کو نقصان نہیں ہوگا۔

سابق صدر جنرل پرویز شرف نے  کئی بار کہاکہ وہ سندھ کے باسی ہیں اور سندھ کو کبھی نقصان ہونے نہیں دیں گے اور کالا باغ ڈیم سندھ کے فائدے میں ہے۔

No comments

Search This Blog