رشتوں کو پامال کرتا عشق ممنوع

 We are real Muslim and our actions and deeds are our representation not what populated or broadcast by or on media by media owners. We are people of Pakistan and we are nation and we are the people of this world. We are the voice and we are the change. The First step is speaking and sharing and talking about the evil and bad going on. And remember its never too late. We have to begin this from somewhere and this somewhere is our-self and Thats Me for everyone. We need to use our-self for a purpose either spreading awareness and knowledge on all fronts as this is our home and we do not let this happen so easily but we raise our values norms and culture as this is our world and we are the rightful owner of this land. so spread the truth as evil has to die sooner or later and truth has to Rule the world and Light has to spread.
all we need to build our own media. We do not need to look for jobs as a purpose but we need to look for purpose and than a job. people are not joining media people who should bring the change like right in system and bringing the change.

At least speak and those days are not far when we gonna begin all in Islamic perspective or things or use media for TRUTH and awareness and not to live only for business and money and our Purposes will be our life and everything.

This is just a beginning when people are raising the voice. Awareness and speaking our evil is first step and soon we will end this regime of ignorance and begin and help people understand the new era of wisdom and knowledge and help to humanity rather only saying doing nothing. So pray and raise your voice and let other know the Truth and let them speak as one day these voice will touch the sky and these people have to quit and this media have to shut the bad and populate and broadcast good for masses. Purpose is our Truth and purpose is our Life and Faith.

ہمارے مُلک میں بڑے مُنظم طریقے سے ماڈرن ازم کے طور پر فحاشی و عُریانی کو فروغ دیا جارہا ہے۔۔۔۔۔۔
اندیشہ ہے کہ عریانی،فحاشی، بے حیائی اور نام نہاد روشن خیالی کا یہ سیل رواں ہماری پہچان ، ہمارا تشخص اور ہماری متاعِ ایمانی کو بہا کر نہ لے جائے۔
مغرب کا ’’تھنک ٹینک ‘‘الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے مسلمان معاشرہ سے عصمت و پاکیزگی کو ختم کر نے ،ہماری حمیت ، ہماری غیرتِ ملی اور شناخت کے خاتمہ کے لیے اپنے تمام تر مادی ذرائع بروئے کار لا رہا ہے ۔

لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ شرم و حیاء کے فروغ کے لیے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے احکامات کو عوام الناس تک پہنچا یا جائے۔۔۔
اپنے گھروں کا ماحول ٹھیک کیا جائے،مادر پدر آزادی اور بے حیائی کا پرچار کرنے والے چینلز کو اپنے گھروں میں بند کیا جائے۔
ہمارے ملک میں میڈیا پر فواحش کی نشر اشاعت کے روک تھام کیلئے پیمرا نامی ایک ادارا بھی قائم ہے مگر اس ادارے کے ذمہ داران کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا ہے یا شائد ان کا تعلق ہی مادر پدر آزاد سوسائٹی سے ہے ۔۔بے غیرت حکمرانوں کے لئے تو یہ کوئی ایشو ہے ہی نہیں۔
ملک میں بڑھتی ہوئی فحاشی و عریانی کے خلاف تمام باشعور عوام کے علاوہ محراب و منبر سے بھی توانا آواز آنی چاہیے ،علماء کرام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے خطبوں میں عوام کو فحاشی و عریانی کے مضر اثرات سے آگاہ کریں


رشتوں کو پامال کرتا عشق ممنوع
تاریخ: دسمبر 12, 2012 مصنف: اسریٰ غوری


آج پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ بہت دیر تک صرف یہی سوچتی رہی کہ میں کہاں سے اور کیسے شروع کروں ؟

آج مجھے الفاظ کا چناوٴ انتہائی دشوار لگ رہا تھا شائد یہی وہ دشواری تھی جس کو ختم کرنے کے لیے ہمارا میڈیا نے دن رات ایک کیا ہوا ہے اور وہ اسی کوشش میں ہے کہ کسی کو بھی کچھ سوچنا نہ پڑے بلکہ جو جس کے جی میں آےٴ وہی کرے وہی بولے بس کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو۔ اور ہر شخص مادر پدر آزاد ہو جاےٴ۔

آج ہمارا میڈیا ان احادیث نبوی ﷺ کی عملی تصویر بنا ہوا ہے  اور
جب تم میں حیا نہ رہے تو جو تمھارے جی میں آےٴ کرو۔ ﴿بخاری،مشکواة،باب الرفیق والحیاء﴾
یعنی حیا ہی دراصل وہ رکاوٹ ہے جو  انسان کو بر ے اور فحش کام کرنے سے روکتی ہے۔ میرے سامنے وہ تصویر کئی بار آئی جس میں اس وقت   ًعشق ممنوع ً کے نام سے چلنے والے ترکی کے مشہور اور حیا باختہ ڈرامے کی مذمت کی گئی میں نے چونکہ ڈرامہ نہیں دیکھا اس لیے اسکے بارے میں ذیادہ معلومات نہیں تھی مگر جب میں نے اسکے بارے میں تفصیلات معلوم کیں اور جو کچھ میں نے سنا اسکو بیان کرنے کے میرے پاس الفاظ نہیں۔

کون ہے جو اس تباہی کا اندازہ لگاے جو باقائدہ پلاننگ کے ساتھ صرف ہماری نئی نسل کو ہی نہیں بلکہ ہمارے خاندانوں کو کس پستی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے  اور اس میدان میں ہمارے اپنے میڈیا نے کیا کم کارنامے انجام دیے ہیں؟ جس نے جنس مخالف کو بس ایک جنس پر کشش بنا کر پیش کیا۔

یہ بہت پرانی بات نہیں کہ ہمارے معاشرے میں بارہ تیرہ سال کا بچہ جو اپنے سے ذرا بڑی لڑکی کو باجی اور ایک تیس سے اوپر کی خاتون کو آنٹی کی نظر سے دیکھتا اور کہتا تھا آج میڈیا اسے سکھاتا ہے کہ بڑا اور چھوٹا کچھ نہیں ہوتا عورت صرف عورت ہوتی ہے جس میں صرف کشش ہوتی ہے اسے اسی نگاہ سے دیکھو اور اس سے کسی بھی عمر میں عشق کیا جاسکتا ہے۔ باجی، بہنا، سسٹر ، آنٹی، خالہ۔۔۔ یہ سب بس القابات ہیں انکے کوئی حقیقی معنیٰ نہیں۔۔۔

مجھے اس خوفناک صورتحال کا اندازہ تب ہوا جب کچھ عرصہ پہلے  مجھے سکول میں جاب کا شوق ہوا ﴿یہ کوئی گلی محلے کا اسکول نہیں بلکہ ایک منظم اور ہمارے یہاں کے ویل ایجوکیٹڈ کلاس سمجھے جانے والے ایک ادارے کا اسکول تھا﴾

میرا پہلا دن تھا کلاس دوم دی گئی تھی، بچے بچیاں سب ہی تھے سب سے تعارف ہوا جب پیریڈ ختم ہونے لگا کچھ بچے قریب آےٴ میں کاپیز چیک کرنے میں مصروف ایک آواز آئی۔۔۔ ٹیچر ۔۔۔
میں نے گردن اٹھاےٴ بغیر جواب دیا۔۔۔ جی بیٹا جان بولیے۔۔۔
مگر میرے ہاتھ سے پین گرا اور میں بہت دیر تک اسے اٹھانے کے قابل نہیں رہی۔۔۔ یہ کیا سنا تھا میرے کانوں نے ایک اور بچہ جو شاید اس بچے کے ساتھ تھا اس سے بولا۔۔۔ اوئے ہوےٴ دیکھ تجھے جان بولا ٹیچر نے۔۔۔ چل اب تو ایک پھول لا کر دے ٹیچر کو۔۔۔ دوسری جماعت کا وہ بچہ جو میرے اپنے بیٹے سے عمر میں چھوٹا اور شائد آٹھ سال کا تھا۔

ایک بار جی چاہا کہ زوردار تھپڑ لگاوٴں مگر اگلے ہی لمحے خیال آیا یہ معصوم ذہن انکا کیا قصور؟؟؟
تھپڑ کے مستحق تو وہ ماں پاب، وہ معاشرہ، وہ میڈیا ہے جس نے ان پاکیزہ اور فرشتہ صفت ذہنوں کو اسقدر پراگندہ کر دیا کہ رشتوں اور رتبوں کا تقدس سب جاتا رہا۔

مجھ میں مزید کچھ سننے کی سکت نہیں تھی۔۔۔میں دکھ اور افسوس کی کیفیت میں بریک میں بھی کلاس ہی میں بیٹھی رہی کہ اسٹاف روم جانے کی ہمت نہیں تھی ،اچانک میری نظر کھڑکی کے باہر کی جانب پڑی تو وہی بچہ ہاتھ میں پھول لیے کھڑا تھا اور اسکی دیکھا دیکھ اور کئی بچے اور بچیاں بھی ھاتھوں میں پھول لیے کلاس روم میں داخل ہوےٴ اور سب نے ٹیبل پر پھول رکھے اور کہا ۔۔ ٹیچر یہ آپ کے لیے ۔۔۔ اب وہ سب منتظر تھے کہ ٹیچر خوش ہونگی ۔ میں نے تھینکس کہا اور پڑھائی شروع کرادی۔

چھٹی ٹائم ایک بچی قریب آئی اور بڑے سلیقے سے سارے پھولوں کو سمیٹ کر گلدستہ کی شکل دے کر  میرے ہاتھ میں دیتے ہوےٴ بڑے لاڈ سے بولی ٹیچر یہ لیجانا مت بھولیےگا اس کے ساتھ باقی سارے بچے بھی میرے گرد جمع ہوچکے تھے میں نے وہ گلدستہ ہاتھ میں لیا اور کھلتے ہوےٴ رنگ برنگی پھولوں کو دیکھا پھر ایک نگاہ ان معصوم پھولوں پر ڈالی جنکی معصومیت، پاکیزگی کو کس بے دردی سے کچلا جا رہا ہے اور اس گلستاں کا مالی کسقدر بے خبر ہے۔ مالی تو اپنے باغ کے ایک ایک پھول سے باخبر ہوتا ہے اور کوئی پھول ذرا وقت سے پہلے مرجھانے لگے تو مالی کی جان پر بن آتی ہے مگر میرے گلشن کا یہ کیسا مالی ہے جس کو خبر ہی نہیں کہ اس کے باغ کو کو ئی اجاڑ رہا ہے برباد کر رہا ہے۔

دل ہمہ داغ داغ شد پنبہ کجا کجا نہم
﴾ ﴿سارا دل داغ داغ ہوگیا،پھاہا کہاں کہاں رکھوں

اس دن مجھے سمجھ آئی کہ  میڈ یا پر ایک انجن آئل کے اشتہار سے لیکر اور ایک روپے کی ٹافی تک میں عورت کی اس نمائش اور ڈراموں میں حیا سوز منظردکھاےٴ جانے کے اس نسل پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

ہم تو ابھی انھیں زخموں کو سہہ نہیں پاےٴ تھے کے یہ ایک اور کاری ضرب اس لادین میڈیا نے ًعشق ممنوعہ ً کی صورت میں ہمارے رشتوں پر لگائی۔۔۔

بخدا مجھے اس لائن سے آگے لکھنے کے لیے اپنی ساری قوت جمع کرنی پڑی کہ
چچی اور بھتیجے کا رشتہ یا میرے خدایا۔۔۔
ماں کے برابر رشتے کی ایسے آبرو ریزی۔۔۔
یعنی اب ہمارے خاندانوں کے تقدس کو اس طرح پامال کیا جائیگا؟؟؟
ایک وقت میں کئی کئی عشق کیے جانے کا سبق ۔۔۔
کم عمر اور کچے ذہنوں کو کس بری طرح دلدل کی نذر کیا جارہا ہے۔۔۔

اور میری حیرانی کی انتہا نہیں رہی جب مجھے یہ پتہ چلا کے یہ ڈرامہ اس وقت کا مقبول ترین ڈرامہ بن چکا ہےاور بہت بے غیرتی کے ساتھ وہ مکمل ہونے جا رہا ہے۔ میں یہ سوچنے لگی کہ ہمارے میڈیا کو اپنی گندگی میں کمی محسوس ہوئی کہ اب ہم  پر دوسروں کی گند گیوں کو بھی انڈیلا جا رہا ہے۔

مگر شائد جب تک ہم غلط باتوں کو اسی طرح ٹھنڈے پیٹوں ہضم کرتے رہیں گے یہ یلغارہم پر یوں ہی جاری رہےگی اس لیے کیونکہ ہم میں﴿ تھرڈ کلاس﴾ تیسرے درجے کا ایمان بھی نہیں رہا کہ کم از کم ہم برائی کو برائی سمجھیں بلکہ ہم تو اسکی تاویلیں تلاش کرنے لگتے ہیں، مجھے بھی ایسی تاویلیں سننے کو ملیں کہ اس ڈرامے کا انجام بہت برا دکھایا گیا ہے اور سبق آموز ہے مگر آپ یہ یاد رکھیے  برائی کی تشہیر برائی کو کئی گناہ بڑھانے کا تو باعث بن سکتی ہے مگر اس میں کمی کا سبب ہرگز نہیں بن سکتی اسی لیے برائی کی تشہیر کا نہیں اس کو دبا دینے کا حکم ہے۔

رب کی وہ تنبیہ بھی یاد کر لیجیے
جو لوگ اہل ایمان میں بیحیائی کو پھیلانا چاہتے ہیں ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ ﴿النور؛  ١۹ ﴾

اور  مجھے خوفزدہ کر دیا حدیث نبوی ﷺ کے ان الفاظ نے کہ
الله تعالیٰ جب کسی بندے کو ہلاک کرنا چاہتا ہے تو اس سے حیا چھین لیتا ہے۔

میرا دل خوف سے ڈ وبنے لگا کہ کیا ہمارے لیے بھی فیصلہ کرد دیا گیا؟؟؟
کیا ہم پر بھی بے حیا وٴں کی مہر ثبت ہو گئی۔۔۔
اس سے آگے میں کچھ نہیں سوچ پائی۔۔۔

آپ اگر سوچ سکیں تو ضرور سوچیں اس سے پہلے کہ سوچنے کی مہلت بھی نہ ملے۔۔۔
http://www.qalamkarwan.com/2012/12/rishtoon-ko-pamal-karta-eshiq-mamno.html 

2 comments

Unknown said...

I Agree wiyh your view madam.

Unknown said...

Good article and informative for youngsters
,

Search This Blog