اب ذرا اور سوچئے!! --- مظفر اعجاز


اب ذرا اور سوچئے!! --- مظفر اعجاز

ایک تاثر ہمارے کچھ دوستوں نے یہ لیا ہے کہ ہم شاید پاکستان میں تعلیم کے فروغ کے لیے چلائی جانے والی جیو ٹی وی کی خصوصی مہم کے خلاف ہیں۔ ویسے تو وضاحت کی ضرورت نہیں تھی، لیکن جن لوگوں نے ’’پاکستان کا مطلب کیا… ذرا سوچئے‘‘ نہیں پڑھا وہ کنفیوژ ہوئے ہیں اور سوالات داغ رہے ہیں، چنانچہ ہم نے اُن کو براہِ راست جواب دینے کے بجائے وہی راستہ اختیار کیا ہے جہاں سے ہمارے کالم کو غلط پیش کیا جارہا ہے۔ اوّل تو سارا زور اس بات پر تھاکہ ہمیں اپنی تص

ویر بگاڑکر کوئی اچھا کام کرنے کی جو ترغیب دی جارہی ہے اس کا ہمیں کیا ثواب ملے گا۔ مغلوں کی صرف خراب تصویر پیش کرنے والے کون لوگ ہیں ہم نہیں جانتے، لیکن یہ کام جیو کی انتظامیہ کا ہے کہ ریسرچ کے نام پر ان سے رقم وصول کرکے کسی اور کا سبق عوام پر ٹھونسا جارہا ہے۔ دوسری اور اہم ترین بات یہ ہے کہ تعلیم کے فروغ اور پاکستان کے نظریے میں کوئی اختلاف نہیں، لیکن تعلیم کے فروغ کے نام پر ہی نظریہ پاکستان کی نفی کی جارہی ہے۔ اب چونکہ بات کھل گئی ہے تو اس پر بھی بات کرلیں کہ پاکستان کا مطلب صرف اور صرف لاالہ الا اللہ ہے، اور پڑھنے لکھنے کے لیے کام بھی یہیں سے شروع ہوگا، کیونکہ اس کلمے والے نے اقراء سے ہی سبق شروع کیا تھا۔ یہ جو کہا جارہا ہے کہ مغل ایسے تھے ویسے تھے، چلیں اسی کو مان کر ذرا موجودہ چار پانچ پاکستانی حکمرانوں کا تجزیہ کریں تو ان میں سے کسی نے بھی مغل بادشاہوں جیسی کوئی عالیشان عمارت نہیں بنوائی، البتہ عیاشیوں اور سرکاری خزانے کی لوٹ مار میں مغلوں کے خراب ترین بادشاہ محمد شاہ رنگیلا کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ اور ہاں یہ بھی یاد رکھیں کہ پاکستان میں تعلیم کی ابتری کا مغلوں سے کوئی تعلق نہیں۔ 65 برس بہت ہوتے ہیں کسی ملک میں اعلیٰ تعلیم کے لیے اعلیٰ یونیورسٹیاں بنانے کے لیے… لہٰذا اگر کوئی مہم چلانی ہے تو اس طرح چلائیں کہ پاکستان میں اسکول جانے کی عمر کے اتنے بچے اسکول سے محروم ہیں، اور ہمارے ایک وزیر کی تنخواہ اور مراعات پر اتنے کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ ایک صاحب نے یہ اعتراض کیا ہے کہ یہ حقیقت ہے کہ مغل اس دور میں عیاشیوں میں مبتلا تھے جب یورپ تعلیم حاصل کررہا تھا۔ دراصل یہ جملہ بھی یورپ کی علمی کم مائیگی اور جہالت کا اشارہ ہے۔ سارا علمی خزانہ مسلمان ملکوں کے پاس تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ نے کئی عشروں تک اپنے ابتدائی نصاب میں عربی لازمی رکھی تھی، کیونکہ وہ یہ خزانہ حاصل کرنا چاہتا تھا۔ بس فرق یہ ہے کہ اس نے حاصل کرنے کا طریقہ چوری والا اختیار کیا… ہمیں اس سے بھی غرض نہیں کہ یورپ نے کس طرح چوری کی… بس دو باتوں کا خیال رکھا جائے… ایک یہ کہ نظریۂ پاکستان کو متنازع نہ بنایا جائے اور تعلیم کا بیڑہ غرق کرنے والوں کو ذمہ دار ٹھیرائیں۔ مغل تو عرصہ ہوا تاریخ میں گم ہوچکے۔ ان کے بعد دو سو سال کی غلامی بھی ہے۔ اور اب آزادی کے بعد 65 برس گزر چکے ہیں… احتساب کریں اُن لوگوں کا جو 65 برس سے اقتدار میں آتے رہے ہیں۔ ہے کوئی پوچھنے والا اقراء سرچارج کے کھربوں روپے کو۔ جیو نے خصوصی نشریات میں 300 ارب روپے کا ذکر کیا ہے کہ اس کے باوجود بھی بچے تعلیم حاصل نہ کرسکے۔ اوریہ کہ دیواریں اور بیت الخلاء بنانے سے اسکول نہیں بن جاتے۔ یہ بھی ذرا سوچنے کی بات ہے۔ جب اسکولوں کی دیواریں ٹوٹی ہوئی تھیں، بیت الخلاء 1960ء سے قبل کے بنے ہوئے ہوتے تھے۔ تو ان ہی پیلی دیوار والے اسکولوں سے اس بورڈ کے نظام میں پوزیشن لینے والے بچے پڑھتے تھے۔ پھر پرائیویٹ تعلیمی ادارے بے تحاشا بنے لیکن پوزیشنیں پھر بھی ان ہی ٹوٹی دیواروں سے آتی رہیں، تب جاکر یورپ کے اسکولوں کی چین درآمد کی گئی اور پوزیشنیں‘ بورڈ‘ اسکولز اور پھر نصاب بھی خریدا جانے لگا… یہ سب بھی اس ملک میں ہوا ہے۔ یہ جو واویلا ہے کہ ذرا سوچیے اتنے لوگ محروم کیوں ہیں! تو واقعی اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کے لیے ایوب خان‘ جنرل ضیاء اور جنرل پرویز کے 33 سالہ دورِ حکومت کا اس طرح آپریشن کیا جائے جیسا کہ مغلوں کا کیا جاتا ہے۔
ایک اور غلط فہمی دور کرلیں۔ انٹرنیٹ پر بھی اورنگزیب عالمگیر کا چہرہ بھیانک بتایا جاتا ہے اور سازشی ہندو تواب تک لگا ہوا ہے۔ ایک عجیب و غریب لایعنی بات ہندوستانی فلموں میں ایک ایکٹر بولتا ہے: ’’یہ عورت ہے یا اورنگزیب!‘‘ کیا معنی ہوئے اس کے… بولنے، لکھنے اور فلم بنانے والے جانتے ہیں۔ شاید اس کو سن کر مسلمان بھی ہنستے ہوں… ہم پچھلے کالم میں صرف یاددہانی کرانا چاہتے تھے کہ اورنگزیب 90 برس کی عمر میں دربار کے باہر خود کھڑے ہوکر لوگوں سے درخواستیں وصول کرتا تھا۔ اس عمر میں باغی مرہٹوں کا تعاقب گھوڑے پر سوار ہوکر کرتا تھا۔ کھچڑی اور دال روٹی کھاتا تھا۔ ٹوپی سی کر اور قرآن پاک کی کتابت کرکے روزی کماتا تھا۔ ایک دو واقعات ہو تو بتائیں، یہاں کتابیں بھری پڑی ہیں۔ لیکن ہم اب صرف ٹی وی دیکھ دیکھ کر ذرا سوچیے میں الجھے ہوئے ہیں۔ کتاب اٹھائیں، پڑھیں اور پھر سوچیں…!

No comments

Search This Blog